وہ جو پتھر کے ہو چکے ہیں اپنے حصے کا رو چکے ہیں
تیرا ملنا سب کو بتایا تھا ، تیرا بچھڑنا سب سے چھپا رہا ہوں
انسانوں کا میلا ہے لیکن ہر انسان اکیلا ہے
وہ کسی اور کا تھا تو میرے ساتھ کیوں تھا ؟
ایک سکون کو پانے کی ضد میں
کتنی بے چنیاں پال لیں ہم نے
اور کچھ ادھوری خواہشوں کا سلسلہ ہے زندگی
جب سانٹا روح میں اتر جائے تو رونقیں متاثر نہیں کرتی
آج بھی تو وہی کل ہے جس کل کی فکر تمھیں کل تھی
بہت تکلیف دیتا ہے کسی کا مل کرکھو جانا
ماشا یہ بھی ہے کہ تماشائی اپنے ہیں