عنوان: “رات کی خاموشی
رات کی گہری تاریکی تھی اور گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس کا ذکر پورے گاؤں میں خوف اور تجسس کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ ہر سال، پندرہویں رات کو، کوئی نہ کوئی عجیب واقعہ پیش آتا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے کنارے پر واقع پرانی حویلی میں کچھ پراسرار ہوتا ہے، جس کی گونج پوری بستی میں سنائی دیتی ہے۔
علی، جو گاؤں کا نوجوان تھا، ان باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ یہ سب افسانے ہیں جو بزرگوں نے محض اپنے دل بہلانے کے لیے بنائے ہیں۔ لیکن اس سال، علی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس راز کو بے نقاب کرے گا۔
پندرہویں رات آئی تو علی چپکے سے حویلی کی طرف نکل پڑا۔ راستے میں چاند کی روشنی مدھم تھی اور ہوا میں سردی کی خفیف سی لہر تھی۔ گاؤں کے لوگ اپنے دروازے بند کر چکے تھے، اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ علی کے دل میں ہلکا سا خوف ضرور تھا، مگر اس کے قدم رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
حویلی کی طرف بڑھتے ہوئے، علی کو اچانک دور سے عجیب سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ رک گیا، کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔ یہ آوازیں انسانی تو نہیں لگ رہی تھیں، لیکن کوئی بھیجان تھا، جو اسے حویلی کی طرف بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جب وہ حویلی کے قریب پہنچا تو اسے ایک سایہ حرکت کرتا نظر آیا۔
علی نے اپنی سانسیں روک کر اس سائے کے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا۔ حویلی کے اندر قدم رکھتے ہی عجیب سی ٹھنڈک اس کے جسم میں سرایت کر گئی۔ جگہ جگہ مکڑی کے جالے، ٹوٹی ہوئی دیواریں، اور ایک گھٹن بھرا ماحول تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ پلٹا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
“کون ہے؟” علی نے بلند آواز میں پکارا، مگر جواب میں صرف خاموشی تھی۔
اسی لمحے، علی کو حویلی کی ایک اندھیری راہداری سے روشنی کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا۔ جوں ہی وہ کمرے کے قریب پہنچا، دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر ایک پرانے آئینے پر پڑی، جس میں ایک پراسرار چہرہ نظر آ رہا تھا، جو علی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ علی نے خوف زدہ ہو کر پلٹنے کی کوشش کی، مگر اس کے قدم زمین سے چپک گئے۔
“کیا تم سچ جاننا چاہتے ہو؟” ایک سرگوشی علی کے کانوں میں گونجی۔
علی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، مگر وہ ہمت جمع کرتے ہوئے بولا، “ہاں، میں جاننا چاہتا ہوں۔”
آئینے میں دکھائی دینے والا چہرہ مسکرایا اور بولا، “یہ حویلی کسی زمانے میں خوشیوں سے بھری ہوئی تھی، مگر ایک رات سب کچھ ختم ہو گیا۔ تمہارے آباؤ اجداد نے میرے ساتھ جو کیا، اس کا بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔”
علی کچھ بولنے ہی والا تھا کہ اچانک حویلی کی دیواریں ہلنے لگیں، اور ایک تیز چیخ فضا میں گونجی۔ علی نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر اس کے قدم پتھر ہو چکے تھے۔ آئینے سے ہاتھ نکل کر علی کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ چیخنا چاہتا تھا، مگر اس کی آواز جیسے حلق میں پھنس گئی ہو۔
اچانک، سب کچھ رک گیا۔ حویلی کی روشنی دوبارہ غائب ہو گئی، اور علی خود کو حویلی کے باہر پایا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانا کاغذ تھا، جس پر خون سے لکھا ہوا تھا: “تم اگلے ہو!”
علی واپس گاؤں کی طرف بھاگتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا وہ واقعی سچ کو جاننا چاہتا تھا؟ یا یہ محض ایک شروعات تھی، ایک خوفناک داستان کا، جو ابھی مکمل ہونا باقی تھی۔
ختم شد۔